• Latest Stories

    بچوں کی شرارتیں




    بچہ شرارت نہیں کرتا تو سمجھ جائیں تو گڑ بڑ ہے!


    اگر کوئی بچہ شرارت نہیں کرتا تو سمجھ جائیں کہ بیمار ہے یا کوئی اسے مسئلہ درپیش ہے، کیونکہ شرارت کرنا ہی کسی بچے کی اصل پہچان ہے، آپ کے بچے بڑے ہو رہے ہیں تو اپنے بچوں کو شرارتیں کام کرنے سے مت روکیں، کیونکہ اس سے بچے میں اعتماد اور خود اعتمادی کی تعمیر ہوتی ہے۔بچے کی حوصلہ افزائی کو فروغ ملتا ہے زندگی کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں زندگی کے ساتھ منسلک خطرات کے بارے میں شعور میں اضافہ ہوتا ہے آنے والے وقت کے لئے منصوبہ بندی کرنے میں مدد ملتی ہے۔کچھ ایسے خطرناک کام جو بچوں کے لئے مددگار ثابت ہوتے ہیں ان کو کرنے سے آپ اپنے بچوں کو نہ روکیں۔جیسا کہ اپنے بچوں کو درختوں پر چڑھنے دیں بہت سے والدین اپنے بچوں کو درخت پر چڑھنے سے منع کرتے ہیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ بچوں کے لئے درخت پر چڑھنے کے بہت سارے فوائد ہیں اس سے نا صرف ان کے پٹھوں کی ورزش ہوتی ہے بلکہ ان میں کامیابی کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے ، اس سے وہ متوازن رہنا سیکھتے ہیں اور وقت پر فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو سمجھتے ہیں۔اپنے بچے کو اکیلے چلنا سیکھائیں۔یہ سیکھنے کے عمل کا لازمی حصہ ہے ، اس سے آپ کا بچہ چلنا سیکھتا ہے جب بچہ چلنا سیکھتا ہے تو صرف اس کو والدین کے ساتھ ہونے کے احساس کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔
     پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پہلا بچہ سیدھا، دوسرا بے پرواہ اور سب سے چھوٹا سب سے تیز نکلتا ہے۔آخر ایسا کیوں ہے کہ اس بچے کو سب سے لاڈلا بنا دیا جاتا ہے اور اس کے آنے کے بعد گھر میں ہر شرارت اور ہر بے وقوفی قابل قبول ہوجاتی ہے۔گھر کے بہت سارے اصول یہی چھوٹا بدل دیتا یا دیتی ہے۔بڑے بہن بھائیوں کے لئے اس چھوٹے کے حوالے سے کئی شکایات ہوتی ہیں لیکن وہ خود بھی اس کے سامنے ہار مان ہی لیتے ہیں۔آخر وہ کیا وجوہات ہیں جو اس چھوٹے بچے کو سب سے زیادہ آزاد بنادیتی ہیں ، والدین اپنی ساری سختی اور ساری پابندیاں بڑے بچے کو اچھا انسان بنانے میں لگا چکے ہوتے ہیں اور ان کے نزدیک انہوں نے چھوٹے کے لئے ایک ماڈل تیار کردیا ہے جس سے وہ سب کچھ سیکھے گا۔لیکن والدین خود چھوٹے بچوں کے معاملے میں آکر کافی کچھ سیکھ چکے ہوتے ہیں۔انہیں لگتا ہے کہ انہوں نے بڑے کو مثال بنانے میں اتنی زیادہ سختیاں کردیں جو انہیں نہیں کرنی چاہیئے تھیں۔اس چکر میں چھوٹے کو چھوٹ مل جاتی ہے۔
    چھوٹا ساری زندگی چھوٹا ہی رہتا ہے۔وہ چاہے کتنی بھی بڑی شرارت یا بات کردے لیکن بڑے ہمیشہ یہی کہتے ہیں۔جانے دو۔ابھی بچہ ہے۔اگر بڑے بہن بھائی اس کی شکایت بھی کریں تو یہی سننے کو ملتا ہے کہ جانے دو ابھی بچہ ہے۔اور یہی بچہ پھر اپنی من مانی بھی کرتا ہے اور شرارتیں بھی۔۔۔لیکن اس کو نظر انداز کردینے کی عادت ہوجاتی ہے ۔
    چھوٹوں کو اپنی ضدیں منوانے میں کمال حاصل ہوتا ہے۔یہ بڑے بہن بھائیوں کو بھی کبھی کبھی اپنے حق میں استعمال کر لیتے ہیں اور والدین سے وہ سب باتیں منوا لیتے ہیں جن کا گھر میں کبھی سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔انہیں گھر کے بڑے بوڑھے بھی بہت لاڈ کرتے ہیں اور بڑے بہن بھائی بھی۔ایک تحقیق کے مطابق بڑے بہن بھائی اپنے چھوٹوں کی ضدوں میں ان کا اس لئے ساتھ دیتے ہیں کیونکہ انہوں نے یہ سب کچھ اپنے ساتھ ہوتے ہوئے دیکھا اور وہ نہیں چاہتے کہ جو ضد ان کی پوری نہیں ہوئی ہو وہ چھوٹوں کے ساتھ بھی ہو۔
    یقینا آپ بھی بعض مرتبہ بچوں کے مسلسل کھیلنے ، شرارتیں کرنے اور ڈانٹنے کے باوجود بھی ان کی جانب سے کھیل کود جاری رکھنے پر تنگ آجاتے ہوں گے۔اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف آپ کے ہی بچے شرارتی ہیں، جو منع کرنے کے باوجود اپنا کھیل کود جاری رکھتے ہیں تو آپ غلط سمجھتے ہیں۔دراصل دنیا بھر کے تمام بچے ایسے ہی ہیں جو مسلسل کھیل کود کرنے کے باوجود بھی نہیں تھکتے۔لیکن سوال یہ ہے کہ آخر بچے تھکتے کیوں نہیں؟ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین نے بچوں اور بڑی عمر کے افراد کے درمیان تھکاوٹ کا موازنہ کرنے کیلئے نابالغ بچوں اور بڑی عمر کے افراد کے 2 گروپ بنائے جنہیں ایکسرسائز یا کھیل کود کے مختلف ہدف دئیے گئے۔بچوں اور بڑوں کو دئیے گئے اہداف کے بعد انکا جسمانی معائنہ بھی کیا گیا اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ آخر بڑوں کے مقابلے میں بچے کیوں نہیں تھکتے ؟رپورٹ میں بتایا گیا کہ نابالغ بچوں کے پٹھوں سمیت دیگر اعضا میں تھکاوٹ کا احساس ہی موجود نہیں جس کی وجہ سے ایکسر سائز یا کھیل کود کے دوران ان کا جسم مزید متحرک ہو جاتا ہے۔

    No comments